شعاعِ فردا

تیرہ و تار فضاؤں میں ستم خوردہ بشر
اور کچھ دیر اجالے کے لیے ترسے گا
اور کچھ دیر اٹھے گا دل گیتی سے دھواں
اور کچھ دیر فضاؤں سے لہو برسے گا

اور پھر اØ+مریں ہونٹوں Ú©Û’ تبسم Ú©ÛŒ طرØ+
رات کے چاک سے پھوٹے گی شعاعوں کی لکیر
اور جمہور کے بیدار تعاون کے طفیل
ختم ہو جائے گی انساں کے لہو کی تقطیر

اور کچھ دیر بھٹک لے مرے درماندہ ندیم
اور کچھ دن ابھی زہراب کے ساغر پی لے
نور افساں چلی آتی ہے عروسِ فردا
Ø+ال تاریک Ùˆ سم افشاں سہی لیکن جی Ù„Û’

Û”Û”Û”Û”Û”Û”Û”Û”Û”Û”Û”Û” Û”Û”Û”Û”Û”Û”